Sign up to join our community!
Please sign in to your account!
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Please briefly explain why you feel this question should be reported.
Please briefly explain why you feel this answer should be reported.
Please briefly explain why you feel this user should be reported.
تعلیم کا مقصد شعور دلانا ہے ہر وہ تعلیم جو مسلمان کو اپنے اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے دین کی معرفت دلاتی ہے وہ دینی تعلیم ہے چاہے وہ روایتی دنیوی علوم کے ذریعے حاصل ہو،اگر ایک مسلمان دینی تعلیم کے باوجود اللّٰہ تعالیٰ کی معرفت سے محروم ہے تو وہ بظاہر دنیوی تعلیم ہے لیکن اگر روایتی دنیوی تعلیم کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے تو وہ دنیوی بھی دینی بن جاتی ہے
دینی تعلیم دنیا اور آخرت میں خیر اور بھلائ کا سبب ہے اور دنیاوی تعلیم دنیا میں خیر کا سبب ہے نہ کہ آخرت میں۔
دینی تعلیم فرض عین بھی ہے جیسے نماز پاکی ناپاکی کاعلم وغیرہ اور فرض کفایہ بھی ہے کہ ایک جماعت کا ہونا اس تعلیم میں ضروری ہے اگر کویی نہ ہوا تو پوری امت پر وبال أیے گا جبکہ عصری تعلیم کا درجہ فرض عین کا نہیں فرض کفایہ کا ہے کسی نہ کسی کا اس شعبے میں رہنا ضروری ہے جیسے علاج معالجہ ڈاکٹرز وغیرہ
دنیاوی تعلیم صرف ذندگی تک کا علم ہمیں سکھاتی ہے جبکہ دینی تعلیم ہمیں دنیاوی اخروی ،اخلاقی معاشی ذندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتی ہے
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن سیکھو اور سکھاؤ
دینی تعلیم سیکھنا لازم ہے جبکہ دنیاوی تعلیم کا علم حاصل کرنا لازم نہیں
قرآن مجید میں اور احادیث میں علم حاصل کرنے کی تمام روایات میں دینی علم حاصل کرنا مراد ہے
حاصل یہ ھیکہ دینی تعلیم کا علم حاصل کرنا فرض عین ہے ہر انسان پر لازم ہے جبکہ دنیاوی تعلیم حاصل کرنا کا یہ حکم نہیں ہے اس کے نہ حاصل کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہے